’’آپ وہی ہیں جو آپ نے آج منتخب کیا، نہ کہ ماضی میں جو انتخاب کیا!‘‘
وین ڈبلیو ڈائر
دن تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو گزر گیا، ایک وہ جس میں ہم رہتے ہیں، یعنی آج اور تیسرا وہ جو ابھی آناہے۔ ہم آج میں رہتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ کچھ چیزیں گزرے ہوئے کل کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ وہ کئی طرح کی ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ شعور نہیں تھا، منصوبہ بندی نہیں تھی، حادثات تھے، اچھی یادیں تھیں۔ ان میں ہم اچھی یادوں کو یاد نہیں رکھتے، جبکہ بری یادوں کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ حال وہ لمحہ ہے جس میں زندگی گزارتے ہیں۔ اگر وہ لمحہ اچھا ہے تو حال اچھا ہوگا اوراگر لمحہ برا ہے تو حال برا ہوگا۔ حضر ت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’جو اپنے مستقبل سے اچھی امید وابستہ نہیں کرتا، اس نے اپنے حال کا بیڑا غرق کردیا۔‘‘
عموماً لوگ اپنے ماضی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کے بعد مستقبل کی مینجمنٹ کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہم اپنا مستقبل تو اچھا بنانا چاہتے ہیں، لیکن اپنے پاؤں میں ماضی کی بیڑی باندھ کر رکھتے ہیں۔ جب یہ روش ہوتی ہے تو پھر اڑان اعلیٰ نہیں ہوتی۔ وہ بوجھ بن جاتی ہے۔ ہم جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو ایک ہی کمرے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ گھر کس طرح کا ہے، گھر والے کیسے ہیں، وہ کتنے مہذب ہیں۔ ہم کچن میں جاتے ہیں تو برتنوں کی ترتیب بتاتی ہے کہ وہ عورت کتنی منظم ہے جس کے ہاتھ میں یہ کچن ہے۔ جس طرح ایک فیکٹری میں تین بنیادی سیکشن ہوتے ہیں۔ ایک سیکشن میں خام مال ہوتا ہے۔ دوسرے سیکشن میں تیار چیزیں ہوتی ہیں جبکہ تیسرے سیکشن میں ضائع شدہ مال ہوتا ہے۔ یہ ضائع شدہ مال اس لیے رکھا ہوتا ہے کہ اسے بھی کہیں نہ کہیں کام آنا ہوتا ہے۔ جس طرح ضائع شدہ مال کو کام میں لایا جاتا ہے، بالکل اسی طرح، ہم ماضی کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھتے ہیں۔ جو شخص ماضی کے ساتھ یہ سلوک نہیں اپناتا، وہ خسارے کا سودا کرتا ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’وہ شخص ہلاک ہے جس نے اپنے آج کو پچھلے دن سے بہتر نہیں بنایا۔‘‘
اگر ہمیں ہوٹل سے کوئی چیز کھانی ہو تو ہم آرڈر دیں گے، پھر اس کی قیمت ادا کریں گے۔ لیکن جب چیز تیارہو کر آجائے اور ہم اسے نہ لیں تویہ رویہ ہماری حماقت کو ظاہر کرے گا۔ یہی غلطی ہم زندگی میں کرتے ہیں۔ ہم نے غلطیوں کی اچھی خاصی قیمت ادا کی ہوتی ہے، لیکن ان سے سیکھتے کچھ نہیں ہیں۔ جب اپنی غلطیوں سے سیکھا نہیں ہوتا تو پھر وہی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ یوں ان کا وزن بڑھ بڑھ کرپچھتاوے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے ماضی کی اچھی یادوں کو بھی ساتھ رکھنا ہوتا ہے تاکہ شکر ادا ہوسکے۔ بعض اوقات اتنی بدبختی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتیں بھلا کر ایک آدھ پریشانی کو یاد رکھ کر اسی پر مرے جاتے ہیں۔ ماضی اس لیے بھی بڑا ضروری ہے کہ بقول سرفرازشاہ صاحب، ’’شکر گزاری کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھی سونے سے پہلے پیچھے مڑکر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کب کب کرم کیا۔ پھر بہت بڑا جواز بن جائے گا کہ میرا حق نہیں تھا، لیکن اس نے پھر بھی مجھے نوازا اور جگہ جگہ نوازا۔
ہمیں جتنی بہترین اصلاح اپنے ماضی سے مل سکتی ہے، اتنی شاید ا استاد سے بھی نہیں مل سکتی، گویا ماضی بذاتِ خود ایک بہترین استاد ہے۔ مگر اس کیلئے وہ ادراک ضروری ہے جو اصلاح لے سکے۔
کبھی کبھی کاغذ پنسل لے کر بیٹھ جایا کیجیے اور ماضی کے ان واقعات کو لکھا کیجیے جن سے سبق ملا ہو۔ پھر آپ ان اسباق کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر عمل کیجیے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر سمجھ لیجیے کہ آپ نے ماضی کو ٹھکانے لگایا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چیز پڑی ہو، لیکن اس سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ آدمی کتابوں سے اتنا نہیں سیکھتا، جتنا اپنے تجربے سے سیکھتا ہے۔ اس لیے اپنی زندگی کے تجربات کو ضرور سامنے رکھئے۔ جس کی زندگی میں نمو یا بہتری نہیں آرہی، اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے ماضی سے سیکھا نہیں ہے۔ بے شمار لوگ سوچے بغیر کام کرتے ہیں اور کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جو کام کرکے سوچتے ہیں۔ بے شمار ادوار ملیں گے جو بے مقصدیت کے نام ہوئے ہوں گے، کئی سال کا رونا ملے گا، یہ اقرار ملے گا کہ میں نے یہ سال ضائع کر دیا، یہ دن میں نے ضائع کردیا، یہ گھنٹہ میں نے ضائع کردیا، یہ لمحہ میں نے ضائع کردیا۔ ممکن ہے، اس سے اللہ تعالیٰ ایک صفت یہ بھی پیدا کردے کہ آپ سو نے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا شروع کردیں۔ اپنے گزرے ہو ئے دن کا محاسبہ کرنا شروع کریں اور دیکھیں کہ آپ کی ذات سے کسی کو کوئی فائدہ ملا ، کیا آپ نے کچھ نیا سیکھا؟
اپنی زندگی کے وہ تلخ تجربات جو آپ کی شخصیت پر غلط اثرات مرتب کر رہے ہیں یا جن کی وجہ سے آپ کی نفسیات تباہ ہو رہی ہے،انھیں نکال فارغ کریں، کیونکہ وہ رکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ ماضی کے یہ تجربات آپ کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ دو نشئی کسی جزیرے پر چلے گئے اور وہاں مٹرگشت کر تے رہے، یہاں تک کہ رات ہوگئی۔ رات کے آخری پہر میں انھوں نے سوچا کہ اب ہمیں واپس جانا چاہیے۔ وہ اپنی کشتی میں بیٹھے اور چپو چلانا شروع کردیا۔ کشتی چلاتے چلاتے صبح ہوگئی۔ روشنی پھیلی تو انھوں نے دیکھا کہ کشتی تو وہیں کی وہیں کھڑی ہے۔ کیوں؟ انھوں نے کشتی کی وہ رسی کھولی ہی نہیں تھی جو درخت کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ماضی کی وہ رسی نہیں کھولتے جو انھوں نے ماضی کے فضول خیالات و واقعات سے باندھی ہوتی ہے۔ جبکہ آگے بڑھنے کیلئے ضرورت ہوتی ہے کہ ماضی کی یادوں اور فضول واقعات کی رسی کو کھول کر اپنا سفر شروع کیا جائے۔
آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کیلئے ماضی سے نکلنا ضروری ہے۔ ماضی سے جڑے رہنا ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ یہ جو آپ کی زندگی میں فرضی قسم کا ماضی ہے کہ ہم تو نوابوں کی اولاد ہیں، ہمارا آدھا خاندان پاکستان بنانے میں شامل تھا، ہمارا اتنا شان دار ماضی ہے، ان سب کہانیوں سے نکلئے۔ اصل یہ ہے کہ آپ اب کیا ہیں۔ عظیم تو وہ ہے جو اگرچہ امیر کبیر خاندان سے تعلق رکھتا ہو، لیکن کامیابی اس کی ذاتی ہو ۔
حال بھی عجیب لمحہ ہے۔ جیسے جیسے ہم اس کو حال کہتے جاتے ہیں، ویسے ویسے وہ ماضی بنتا جاتا ہے۔ حال بہت ہی محدود اور چھوٹاسا لمحہ ہوتا ہے۔ لوگ اپنے اس چھوٹے سے لمحے کو ضائع کرتے ہیں۔ بعض لوگ اپنا ایک پاؤں ماضی میں رکھتے ہیں اور دوسرا مستقبل میں رکھتے ہیں، جبکہ یہ حال سے فارغ ہوتے ہیں۔
لوگ سب سے زیادہ اپنے حال کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔مثلاً شادیوں پر عورتیں اپنے بڑوں کو رو رہی ہوتی ہیں اور اپنے حال کو خراب کر رہی ہوتی ہیں۔ جو اپنے حال کو خراب کرنے والا شخص ہے، اس کے پاس دو ہی مسئلے ہوتے ہیں۔ ماضی کی پشیمانیاں یامستقبل کے خدشے۔ کمال یہ ہے کہ حال کو بچایا جائے اور اسے بہترین بنایا جائے، کیوں کہ ماضی تو گزر گیا جو اب آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ مستقبل ابھی دور ہے، نہیں معلوم کب آئے گا۔ اب حال ہی وہ زمانہ ہے کہ جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جسے آپ کنٹرول کرسکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ جس لمحے میں ہیں، اسی لمحے میں رہیں اور اس سے لطف اٹھائیں۔ اس لمحے آپ جس حالت میں بھی ہیں، اس پر متوجہ ہوں اور اسے قبول کرلیں۔
حال میں آنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ابھی اپنی سانس روکیے۔ سانس روک کر غور کیجیے کہ آپ اس وقت کیا محسوس کررہے ہیں۔ جب آپ سانس روکتے ہیں تو خیال در خیال کا سلسلہ رک جاتا ہے، اس لیے آپ سانس روک کر موجودہ لمحے کا مزہ لے کر دیکھئے۔ آج یہ ایک بہت بڑی سائنس ہے جس کی تربیت دنیا کی بڑی یونیورسٹیز میں دی جارہی ہے۔
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ حال درحقیقت قدرت کی طرف سے ڈش ہوتی ہے اور قدرت یہ تحفے کے طور پر انسان کو دیتی ہے۔ اگر انسان اس تحفے سے لطف اندوز نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنے آنے والے کل کو بھی خوش گوار نہیں کرسکتا۔ اپنے حال سے لطف اندوز ہونے والے کو ’’صاحب حال‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور صاحب حال وہ ہوتا ہے جس کو اپنے حال پر گرفت ہوتی ہے۔ حال پرگرفت پانے کی بہترین مشق نماز ہے۔ مگر آج نمازی اپنی نماز میں بھی ماضی یا مستقبل کی سوچوں میں گھرا ہوا ملتا ہے۔ اگر وہ صاحب حال ہوجائے تو وہ دورانِ نماز اللہ سے ہم کلام ہونے کا لطف اٹھائے۔
حال میں رہنے کو اپنی عادت بنائیے۔ اپنی عادت میں حال میں آئیے۔ اپنی خوشی میں حال میں آئیے۔ اپنی اس کیفیت میں آئیے جو حال پر ہو۔ ایک عقل مند کا قول ہے کہ’’جو اپنے بیس روپے کا چائے کا کپ انجوائے کرسکتا ہے، وہ اپنے حال کو گرفت کرسکتا ہے۔‘‘ ہم چائے کے ایک کپ کا مزہ نہیں لے سکتے اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے پاس گاڑی آئے گی، زیادہ پیسہ آئے گا، تب خوشی ملے گی۔
مستقبل ایک آنے والی حقیقت ہے۔ مستقبل کو بہتر بنا نے کیلئے حال میں خواب بنانے پڑتے ہیں۔جس نے شعوری کوشش کرکے اپنے خواب بنائے، اس کا مستقبل بہترین ہوتا ہے۔ جو آدمی یہ کہتا ہے کہ ’’پتا نہیں ہماری کب سنی جائے گی‘‘ وہ سخت خطرے میں ہے۔ وہ ذات تو ہر وقت سنتی ہے۔ جب آدمی یہ جملہ کہتا ہے تو اس فقرے میں شرط لگ جاتی ہے کہ شاید وہ کبھی سنے گاہی نہیں۔ جب یہ شرط لگا دی جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے سمیع و بصیر ہونے کو گویا کہ چیلنج کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کو سخت ناپسند کرتی ہے، کیوں کہ وہ تو کہتا ہے کہ میں ہر وقت سنتا ہوں۔
ایک اژدہا ایک پیر کا مرید ہوگیا۔ وہ اپنے مرشد سے کہنے لگا، میرے لیے بھی کوئی حکم فرمائیں۔ پیر صاحب نے کہا، تیرے لیے صرف ایک ہی حکم ہے کہ کسی کو ڈسنا نہیں۔ اس نے کہا، ٹھیک ہے۔ باہر گیا توسوچنے لگا کہ اب تو میں نے بیعت کرلی ہے، اب کسی کو ڈسوں گا نہیں۔ وہ جیسے ہی باہر نکلا، لوگوں نے اسے مارناشروع کردیا۔ وہ اپنے آپ کو بچاتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔ وہاں بھی لوگوں کا وہی سلوک رہا۔ غرض وہ جدھر بھی جاتا، لوگ اسے مارتے۔ وہ واپس پیر صاحب کے پاس آیا اور انھیں کہنے لگا، پیر صاحب، میں تو رُل گیا ہوں۔ جدھر بھی جاتا ہوں، میرے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے۔ پیر صاحب نے کہا، میں نے تمہیں صرف ڈسنے سے منع کیا تھا، رعب ڈالنے سے نہیں، یعنی کچھ حصہ رکھنا ہوتا ہے۔ ماضی کا کچھ حصہ ایسا ہوتا ہے جو مستقبل میں کام آتا ہے۔ اسے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنے مستقبل کے حوالے سے خواب بنائیے، مقصد بنائیے،اپنے ماضی کی سمجھ سے کچھ فیصلے کیجیے۔ ہم صرف اتنا ہی دیکھ سکتے ہیں جتنی ہماری گاڑی کی ہیڈ لائٹ ہوتی ہے۔ ہیڈلائٹ سے مراد ہمارے اندر کے فہم کی روشنی ہے۔ اگر ہمارے اندر یہ روشنی پیدا نہیں ہوئی تو ہم زیادہ دور تک دیکھ نہیں سکتے، بلکہ بعض لوگ تو چند قدم آگے کا نہیں دیکھ سکتے۔ اس لیے ہمیں اپنے اندر دوراندیشی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا بہترین اوزار ماضی ہے۔ جو آدمی تنہا بیٹھ کر اپنے آپ کو بے عزت کرسکتا ہے، وہ بہت اعلیٰ انسان ہے، کیونکہ پھر اسے دنیا بے عزت نہیں کرسکتی۔ اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے ماضی سے کچھ اچھا نکالیے۔ اپنے مستقبل میں کچھ نیا داخل کیجیے۔ ماضی کی ان چیزوں اور یادوں کو چھوڑ دیجیے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپنے مستقبل کے بارے میں خیر کا خواب دیکھیں اور وہ خیر کاخواب دوسروں کیلئے ہو۔
جو آج سے ایک نیکی شروع کرتا ہے اور پھر اس پر استقامت بھی قائم کرتا ہے اور اسے بڑی نیکی میں تبدیل کرتا ہے تو پھر وہ اعلیٰ انسان ہے ۔آج جس نے آم کا پودا لگا یا ہے، لیکن وہ دعائیں امرود کی مانگ رہا ہے تو کبھی امرود نہیں لگیں گے۔آ ج جو چیزیں بونا چاہتے ہیں انھیں شعوری طور پر بونا شروع کیجیے تا کہ ان کے پھل مستقبل میں مل سکیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ برکت بھی ڈالے گا اور خیر بھی۔ پھر آنے والا وقت بہت اعلیٰ ہو گا۔


0 Comments